بچپن
شہر میں جب برسات ہوئی تو ہم کو بچپن یاد آیا
وہ سوندھی خوشبو یاد آئی وہ کچا آنگن یاد آیا
میری وہ مٹی کے کھلونے اور وہ گھوڑا لکڑی کا
وہ کچی دیوار پرانی میلا درپن یاد آ یا
پونم کی وہ رات سہانی اور کھیتوں میں بہتا پانی
دھول اڑاتا، شور مچاتا بھاپ کا انجن یاد آیا
بوڑھے برگد کے نیچے ہم دھوپ میں املی کھاتے تھے
اس دبلے پتلے دھوبی کی لڑکی کا جوبن یاد آیا
شام سویرے دادا جی مرغی کو دانہ دیتے تھے
باورچی خانے میں بجتا دادی کا کنگن یاد آیا
دولہے کے گھوڑے کے آگے سب ناچتے گاتے چلتے تھے
اور دلہن کو لگنے والا ہلدی چندن یاد آ یا
بچپن کی یادوں کے ساتھ صبح سویرے اے کاوش!
دادی ماں کی آ نکھ کا انجن، دانت کا منجن یاد آیا